14-Apr-2022 لیکھنی کی کہانی -منزل عشق قسط 6
منزل عشق قسط 6
وانیا کو ان ظالم لوگوں کی قید میں گئے چار دن ہو چکے تھے اور آرمی ابھی تک اسکا پتہ لگانے میں ناکام رہی تھی۔وجدان نے کسی کو معاملے میں شامل ہونے کی اجازت ہی نہیں دی تھی اسکا بس یہی کہنا تھا کہ یہ کام صرف آرمی کا ہے اور کسی کا اس میں شامل ہونا ہی بے وقوفی ہے۔
اس نے زبردستی سب کو اپنی معمولات زندگی کی جانب واپس جانے کے لیے کہا لیکن شایان اس بات پر آمادہ نہیں تھا۔اسی لیے اس نے کل ہی معراج اور جنت کو جانان کے ساتھ واپس بھیج دیا جبکہ خود وہ وجدان اور زرش کے پاس ہی رکا تھا۔
وجدان خود بھی تو ایک پل کے لیے بھی زرش کو تنہا نہیں چھوڑتا تھا اتنے دنوں میں وہ بمشکل بس تین مرتبہ جنرل شہیر سے ملنے گیا تھا اور زرش کی طبیعت ہر گزرتے لمحے کے ساتھ مزید بری ہوتی جا رہی تھی۔جتنی دیر وہ جاگتی رہتی بس روتے ہوئے وانیا کے بارے میں ہی پوچھتی اور سلایا تو بس اسے نیند کی دوائیوں کے زیر اثر ہی جاتا۔
وجدان ابھی ابھی زرش کے روم سے اسکے آنسو اور گڑگڑانا دیکھ کر نکلا تو اسکی نظر اپنی دوسری بیٹی پر پڑی جو باہر موجود کرسیوں میں سے ایک پر سر جھکائے بیٹھی تھی۔
"ہانیہ بیٹا۔۔۔۔"
وجدان نے سر پر ہاتھ رکھ کر اسے پکارا تو ہانیہ نے نم آنکھیں اٹھا کر اپنے باپ کو دیکھا۔
"کچھ پتہ چلا وانی کا۔۔۔؟"
اسکے سوال پر وجدان کا چہرہ مایوسی سے جھک گیا۔
"نہیں بیٹا لیکن میری جنرل شہیر سے بات ہوئی ہے وہ بہت جلد ہی ہماری وانیا کو ڈھونڈ لیں گے۔۔۔۔"
وجدان کی بات پر ہانیہ نے اپنی مٹھیاں اتنی زور سے کس لیں کہ اسکی ہتھیلیوں سے خون کی بوندیں نکلنے لگیں۔
"اور یہی بات جنرل صاحب چار دنوں سے کہہ رہے ہیں بابا۔۔۔۔چار دن۔۔۔۔اتنا عرصہ ہو گیا بابا وانیا کو کھوئے ہوئے اور آپ بس ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھے ہیں؟"
ہانیہ کی آواز میں بہت شکوہ بہت درد تھا۔
"ایسا نہیں ہے بیٹا آرمی اسے ڈھونڈنے کی ہر ممکن کوشش۔۔۔۔"
"وہ آرمی کی بیٹی نہیں بابا آپکی بیٹی ہے۔۔۔۔مجھے یہ بتائیں آپ کیا کر رہے ہیں اسے ڈھونڈنے کے لیے۔۔۔۔ہاں بولیں۔۔۔۔"
ہانیہ نے وجدان کی بات کاٹتے ہوئے غصے سے کہا اور پھر سے آنسو بہانے لگی۔
"تمہاری ماں کو میری ضرورت ہے ہانیہ۔۔۔"
وجدان نے بہت زیادہ بے بسی سے اپنی سرخ ہوتی سبز آنکھیں بھینچ کر کہا۔
"اور مما کی ضرورت وانیا ہے بابا لیکن آپ اسکے پاس نہیں۔۔۔۔۔آپ وانیا کے ہیرو تھے بابا اور آپ ہی اسکے پاس نہیں۔۔۔"
ہانیہ اتنا کہہ کر پھوٹ پھوٹ کر رو دی تو وجدان نے اسے اپنے سینے سے لگا لیا۔
"ہانیہ بیٹا بھروسہ رکھو مجھے یقین ہے کہ آرمی ہماری وانیا کو ڈھونڈ لے گی ضرور۔۔۔"
وجدان نے اسکی کمر کو سہلاتے ہوئے کہا جو اب باپ کے سینے سے لگی پھوٹ پھوٹ کر رو رہی تھی۔وجدان نے اسکا چہرہ ہاتھوں میں تھام کر اسکے آنسو پونچھے۔
"تم تو میرا بہت بہادر بیٹا ہو نا ہانیہ پلیز تم حوصلہ رکھو اپنی مما کی خاطر وہ ۔۔۔۔۔وہ کسی سے بھی نہیں سنبھل رہی۔۔۔"
وجدان نے بہت بے بسی سے کہا۔
"ہانیہ تم تو وانیا بن کر ہمیشہ سب کو حیرت میں ڈال دیتی ہو نا تو تم وانیا بن کر زرش کو تھوڑی تسلی دلا دو۔۔۔"
وجدان نے بہت امید سے ہانیہ کی جانب دیکھا جو حیرت سے اسے دیکھ رہی تھی۔
"آپ کو کیا لگتا ہے میں نے کوشش نہیں کی؟۔۔۔۔وہ ماں ہیں بابا دیکھتے ہی پہچان جاتی ہیں مجھے اور پھر مجھ سے وانیا کا پوچھتی ہیں۔۔۔۔میں کیا جواب دوں انہیں بابا۔۔۔۔مجھے بتائیں کہ میں کیا جواب دوں۔۔۔؟"
ہانیہ اپنا سر ہاتھوں میں تھام کر روتے ہوئے سوال کر رہی تھی۔
"ہانیہ مجھے پوری امید ہے کہ آرمی بہت جلد وانیا کو تلاش۔۔۔۔"
"جلد۔۔۔۔؟ بابا شاید آپکو نظر نہیں آ رہا کہ اب یہاں جلد والا کچھ نہیں رہا۔۔۔۔۔دیر تو پہلے ہی ہو چکی ہے۔۔۔چار دن بہت زیادہ ہوتے ہیں بابا پتہ نہیں اتنے وقت میں اس کے ساتھ کیا۔۔۔۔پتہ نہیں وہ زندہ بھی ۔۔۔۔"
ہانیہ نے اپنے دل میں آتے وسوسے ظاہر کیے اور پھر سے پھوٹ پھوٹ کر رو دی۔
"کچھ نہیں ہو گا اسے ہانیہ بھروسہ رکھو۔۔۔"
وجدان نے بہت زیادہ بے بسی سے کہا لیکن اس وقت ہانیہ کو اسکی بے بسی سے بہت زیادہ نفرت ہو رہی تھی۔
"نہیں رکھنا بھروسہ بابا اب مجھے کسی پر بھی بھروسہ نہیں کرنا۔۔۔۔آپ پر بھی نہیں۔۔۔"
ہانیہ نے وجدان کا ہاتھ جھٹک کر کہا اور وہاں سے اٹھ کر باہر موجود گاڑی میں بیٹھے اپنے گھر کی جانب روانہ ہو گئی۔اب وہ جانتی تھی کہ اسے کیا کرنا تھا۔
❤️❤️❤️❤️
معراج جو جانان اور جنت کے ساتھ کل ہی لاہور واپس لوٹا تھا آج کالج آیا تو اسے پتہ چلا کہ آج انکی پرائیز ڈیسٹریبیوشن سیریمنی ہے جس کے لیے خوشحال پارٹی کے سربراہ اور انکے وزیر اعلی خادم شفیق انکے کالج آ رہے تھے۔
"ارے واہ کیا بات ہے نا آج ٹاپرز کو پرائز ملے گا میں یہ سوچ رہا تھا کہ ہمارے بونگے کو بھی فسٹ پرائز ملتا نا اگر ٹاپرز کو اوپر سے نہیں نیچے سے گننا شروع کر دیں تو۔۔۔۔"
عمیر نے معراج کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر ہنستے ہوئے کہا تو اس کے دوست بھی قہقہ لگا کر ہنس دیے۔
"چچچ۔۔۔۔چھوڑو مجھے عمیر۔۔۔۔ککک۔۔۔۔۔کیوں پریشان کرتے ہو مم۔۔۔میں نے کیا بگاڑا ہے تمہارا۔۔۔"
معراج نے گھبرا کر اس سے خود ہوتے ہوئے کہا اور اپنا چشمہ درست کرنے لگا۔
"ارے بونگے تو تو فلموں کی ہیروئن کی طرح ڈائیلاگ مار رہا ہے دیکھنا ابھی بولے گا چھوڑ دو مجھے مت کرو میرے ساتھ ایسا۔۔۔میں اپنی بات کو کیا منہ دکھاؤں گی نہیں۔۔۔"
امیر نے کانوں پر ہاتھ رکھتے ہوئے اوور ایکٹنگ کی۔
"ارے یار یہ تو ہیروئن بھی نہیں ہو سکتا کیونکہ جججج۔۔۔۔۔جب تک ببب۔۔۔بولے گا نا فلم ہی ختم ہو جائے گی۔۔۔"
عمیر کے دوست کی بات پر سب ہنسنے لگے اور معراج سر جھکا کر اپنی تزلیل پر آنسو ضبط کرتا وہاں سے چلا گیا۔کچھ دیر میں ہی فنکشن سٹارٹ ہو چکا تھا اور وزیر خادم شفیق سٹیج پر آ کر اب سٹوڈینٹس کے سامنے کھڑے تھے۔
"اسلام و علیکم میرے ملک کے قابل جوانوں۔۔۔کیسے ہو سب؟"
خادم شفیق کا لہجہ شفقت سے بھرا ہوا تھا۔
"تم سب صرف نوجوان نہیں ہمارے ملک کا وہ قیمتی سرمایہ ہو جس کی بدولت ہمارا ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہوگا اور آج جتنے بھی طالب علم مجھ سے انعام حاصل کریں گے وہ ملک کا انتہائی قیمتی اثاثہ ہیں میں چاہوں گا کہ اگلی بار سب ہی وہ قیمتی اثاثہ بننے کی کوشش کریں۔"
خادم شفیق کی بات پر سب نے تالیاں بجائیں معراج جو عمیر اور اس کے ساتھیوں سے چھپ کر فرنٹ رو میں بیٹھا تھا اچانک ہی اسکی نظر خادم شفیق کی چھاتی پر پڑی جہاں ایک چھوٹا سا لال روشنی کا نقطہ تھا پہلے تو معراج حیران ہوا پھر اس لال روشنی کا مطلب سمجھ کر جتنی رفتار سے ہو سکتا تھا وہ اٹھا اور اسٹیج پر آکر پوری طاقت سے خادم شفیق کو دھکا دیا تھا۔
جہاں سب معراج کی اس حرکت پر حیران ہوئے تھے وہیں معراج کے بازو سے نکلتا خون دیکھ کر سب کی حیرانی پریشانی میں بدل گئی تھی۔
خادم شفیق پر اس مجمے میں کسی نے گولی چلانے کی کوشش کی تھی جو اب معراج کے بازو پر لگی تھی۔خادم شفیق کے گارڈ نے فورا آگے ہو کر انکے گرد ایک گھیرا قائم کر لیا۔
"بچے کو دیکھو تم لوگ۔۔۔۔"
خادم نے معراج کو دیکھتے ہوئے کہا جو کہ اب درد سے بے ہوش ہو چکا تھا جبکہ عمیر اور اس کے دوست ہیں یہ سوچ رہے تھے کہ انکے بزدل سے بونگے نے اتنی بہادری کا کام کیسے کر لیا؟"
❤️❤️❤️❤️
"اب کیسی طبیعت ہے میرے شیر کی۔۔۔"
راگا ایک جگہ کھڑا پہاڑوں کے دامن سے نکلتی جھیل کے نظارے دیکھ رہا تھا جب اسے اپنے قریب سے ویرہ کی آواز سنائی دی۔
"تجھے کیسا لگ رہا ہوں؟"
"بلکل میرے نام جیسا 'ویرہ' ایک دہشت۔۔۔"
ویرہ کے جواب پر راگا کے چہرے پر ایک مسکان آئی۔
"اور اب دہشت بننے کا وقت آ چکا ہے ویرہ اب اپنے دشمنوں کو بتانے کا وقت آ چکا ہے کہ راگا کیا چیز ہے۔۔۔۔انہیں کیا لگا تھا کہ مجھے قید میں ڈال کر میری دہشت کو ختم کر دیں گے۔۔۔۔۔اب مجھے ان سب کو دہشت لفظ کا مطلب سمجھانا ہے۔۔۔"
راگا نے اپنے مٹھیاں بھیجتے ہوئے کافی جنون سے کہا۔ویرہ نے اس کے کندھے پر اپنا ہاتھ رکھا تھا۔
"ایسا ہی ہوگا راگا تو ،میں اور کال مل کر اس پورے ملک میں دہشت پھیلائیں گے۔۔۔۔"
راگا نے اثبات میں سر ہلایا۔
"ابھی کچھ دن پہلے ہی میری سلطان سے بات ہوئی تھی ایک پارٹی کافی اچھل رہی ہے تو ریلوے اسٹیشن پر دھماکہ کر کے الزام اس پارٹی کے سربراہ پر لگانا ہے بدلے میں سلطان ہمیں بہت سے ہتھیار اور پیسے دے گا۔۔۔"
"سلطان؟"
ویرہ کے بتانے پر راگا نے حیرت سے سوال کیا۔
"ہاں سلطان، تجھے یاد نہیں تو اسی کا کام کر رہا تھا جب فوج نے تجھے پکڑ لیا ۔۔۔"
راگا نے اثبات میں سر ہلایا۔
"ہاں یاد ہے مجھے لیکن سلطان اسکی اصلی پہچان نہیں ویرہ۔۔"
ویرہ راگا کی بات پر مسکرا دیا۔
"بالکل یہ اس کا اصلی نام نہیں ہے بلکہ آج تک کسی نے اس کا چہرہ بھی نہیں دیکھا۔ملک میں ہونے والا تقریباً ہر غیر قانونی کام وہی تو کرواتا ہے اور بہت عام لوگوں کے ذریعے رابطہ کرتا ہے وہ ہم جیسے لوگوں سے۔۔۔۔۔"
راگا نے کچھ دیر سوچ کر ویرہ کی بات پر غور کیا۔
"تو ٹھیک ہے پھر اس بار اس سے یہ کہتے ہیں کہ آمنے سامنے بیٹھ کر ہم سے بات کرے تب ہی اس کا کام کریں گے
۔۔۔۔راگا کو اس آدمی کے ساتھ کام نہیں کرنا جس کا اصل نام تک نہ جانتا ہو۔۔۔ "
"یہ ناممکن ہے راگا سلطان کبھی بھی کسی سے نہیں ملا اور اسی بات پر تو وہ ہمیں یہ کام دے گا ہی نہیں۔۔۔۔۔اور اصلی نام تو ہم تینوں کا بھی کوئی نہیں جانتا۔۔۔۔جب سے ملے ہیں تب سے ہم تینوں ایک دوسرے کے لیے صرف کال،راگا اور ویرہ ہیں۔"
ویرہ نے مسکراتے ہوئے کہا۔
"ہماری بات اور ہے ویرہ ایک دوسرے پر بھروسہ کرتے ہیں ہم۔۔۔۔ ہمارے حق میں یہی بہتر ہوگا کہ ہم احتیاط سے کام کریں۔۔۔۔"
راگا نے اپنا سردار والا انداز اپنایا تو ویرہ نے کچھ سوچتے ہوئے ہاں میں سر ہلا دیا۔اسے مزید کوئی جواب دیئے بغیر راگا اپنے گھر واپس آیا۔
بند دروازے کا تالا کھولا تو اسکی نگاہ وانیا پر پڑی جو کونے میں موجود گدے پر گلابی رنگ کے ریشمی سے پٹھانی فراک اور پاجامے میں ملبوس اپنا سر گھٹنوں پر رکھے بیٹھی تھی۔دوپٹہ بے نیازی کے عالم میں فرش پر پڑا تھا اور کمر پر بکھرے ملائم بال اسے بہت ہی حسین بنا رہے تھے۔
"آج تو کوئی سچ کا گل لگ رہا ہے ماڑا باغیچے کا سب سے حسین پھول۔۔۔"
راگا کی آواز پر وانیا نے جلدی سے سر اٹھایا اور سہم کر اسے دیکھتے ہوئے دوپٹہ سر پر ڈالا تھا۔
اسے اس کمرے میں قید ہوئے چار دن ہو چکے تھے اور اس عرصے میں راگا نے کبھی اسے ہاتھ تک بھی نہیں لگایا تھا لیکن وہ باتوں کے تیر چلانے سے بعض نہیں آتا تھا۔پھر بھی وانیا اس سے بہت زیادہ ڈرتی تھی اور ڈرتی بھی کیوں نہ وہ شخص دہشت کی جیتی جاگتی مثال تھا۔
"اب پھر سے رونا مت شروع کر دینا افغان جلیبی ہمیشہ کی طرح دوری سے ہی تمہارے حسن کی تعریف کروں گا۔۔۔پاس آنے کا تو حق ہی نہیں مانا اگر ہوتا نا تو جتنا تم حسین لگ رہا ہے نا اس وقت۔۔۔۔"
اس سے پہلے کہ راگا اپنی بات مکمل کرتا وانیا نے منہ بنا کر نم آنکھوں سے اسے دیکھتے ہوئے اپنے کانوں پر ہاتھ رکھ لیے۔
"اففف یہ حسن اور اس پر معصوم ادائیں نا جانے زندہ کیسے ہے یہ راگا اتنا سب جھیل کر۔۔۔۔"
راگا نے سر جھٹک کر کہا اور اپنے بیڈ کے ساتھ موجود دراز میں سے سے کچھ نقشے نما کاغذ نکال کر دیکھنے لگا جبکہ وانیا ابھی بھی اسے یوں سہم کر دیکھ رہی تھی جیسے وہ کسی بھی پل اس پر جھپٹ پڑے گا۔
"آآآ۔۔۔۔۔آپ پھر سے لوگوں کی جان لینے لگے ہیں نا۔۔۔۔۔برے ہیں آپ بہت برے ہیں۔۔۔"
وانیا نے ڈرتے ہوئے راگا کو آگاہ کیا تو اس نے اپنی خطرناک سیاہ آنکھوں سے اس چھوٹی سی لڑکی کو دیکھا۔
" میں تمہیں کیوں برا لگتا ہوں ابھی تک تو بہت زیادہ شرافت کا مظاہرہ کیا ہے میں نے۔۔۔۔"
درگا کی نگاہوں کی تپش خود پر محسوس کر وانیہ سمٹ سی گئی۔
"کک۔۔۔۔کیونکہ آپ لوگوں کی جان لیتے ہیں۔۔۔"
"وہ تو تمہارا باپ بھی لیتا ہے۔۔۔۔"
راگا نے اپنی نگاہیں ان کاغذات پر جماتے ہوئے کہا۔
"نہیں وہ آپ کی طرح معصوم لوگوں کو نہیں مارتے صرف برے لوگوں کو مارتے ہیں۔۔۔۔"
راگا نے ایک ابرو اچکا کر وانیا کو دیکھا۔
"برائی تو سب میں ہے ماڑا کچھ میں زیادہ کچھ میں کم اور اگر مصومیت کی بات کریں تو معصوم تو اس دنیا میں کوئی بھی نہیں۔۔۔۔"
راگا کی آواز طنز سے بھری ہوئی تھی۔
"کیا ملتا آپکو یہ سب کر کے کبھی سوچا ہے کہ دھماکے میں کتنے معصوم بچے اور عورتیں ہوتی ہیں۔۔۔۔۔کتنے ہی بزرگ اور جوان آدمی جو اپنے گھر والوں کا سہارا ہوتے ہیں اور سب کو ایک ہی جھٹکے میں مار کر آپ اپنا ذاتی مفاد حاصل۔۔۔"
وانیا جو نہ جانے کہاں سے ہمت اکٹھی کرکے بولتی چلی جا رہی تھی راگا کے سرخ ہوتی آنکھوں سے گھورنے پر خاموش ہوگئی۔
"اس سب سے جتنا دور رہو تمہارے لئے اتنا ہی بہتر ہے زیادہ دماغ چلاؤ گی تو میں تو کیا تمہیں کوئی بھی بچا نہیں سکے گا۔۔۔۔۔اس لیے پھر کبھی اپنی زبان مت کھولنا۔۔۔۔"
ایسا کہتے ہوئے نہ تو راگا کے لہجے میں پٹھانی طرز تھی اور نہ ہی کوئی شرارت بلکہ اس قدر سفاکی تھی کہ وانیا کی روح تک کانپ گئی۔
"ممم۔۔۔۔۔مجھے یہاں نہیں رہنا جانا ہے مجھے۔۔۔۔اپنے گھر جانا ہے۔۔۔"
وانیا خود کو پھوٹ پھوٹ کر رونے سے نہیں روک پائی تھی۔
"اب تم چاہو یا نہ چاہو تمہیں یہاں رہنا ہوگا یہ بات جتنی جلدی سمجھ لو اتنا ہی تمہارے حق میں بہتر ہے۔۔۔۔"
اتنا کہہ کر راگا اٹھا اور وہاں سے باہر چلا گیا اور وانیا پھر سے پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی تھی۔
❤️❤️❤️❤️
"کیسی طبیعت ہے اب اس بچے کی؟"
خادم نے اپنے سب سے خاص آدمی سے پوچھا۔
"سر ہسپتال میں داخل ہے وہ تو شکر ہے گولی صرف بازو کو چھو کر نکل گئی اس لیے خطرے کی کوئی بات نہیں۔۔۔۔"
خادم نے اثبات میں سر ہلایا۔
"ہسپتال چلو اس بچے سے ملنا ہو گا نہ جس نے میری جان بچائی۔"
خادم کا پی اے اسکی بات مانتا ڈرائیور کو ہسپتال جانے کا بولنے لگا اور کچھ ہی دیر میں خادم شفیق کی سات سے آٹھ گاڑیاں اور گارڈ ہسپتال کے باہر تھے۔
"سر آپ پر جان لیوا حملہ ہوا آج آپ اس بارے میں کیا کہنا چاہیں گے؟
خادم کے گاڑی سے باہر نکلتے ہی ایک رپورٹر سامنے آئی اور سوال کرنے لگی۔
"دیکھیں میں یہ تو نہیں جانتا کہ میری جان کون لینا چاہتا ہے لیکن اتنا ضرور جانتا ہوں کہ اندر لیٹا وہ بچہ میرے لیے فرشتہ ثابت ہوا اور ابھی مجھے اسکے پاس ہونا چاہیے۔"
اتنا کہہ کر خادم انکے باقی سوالات کو نظر انداز کرتا اندر گیا تو اسکا پی اے اسے ساتھ لے کر وارڈ میں آیا جہاں جنت پریشانی سے معراج کے سرہانے بیٹھی تھی جبکہ جانان اسکا ہاتھ تھام کر روتی ہی جا رہی تھی۔
"بب ۔۔۔۔بڑی مما کچھ ننن۔۔۔۔ نہیں ہوا مجھے یقین کریں ٹٹٹ۔۔۔۔ٹھیک ہوں۔۔۔"
معراج کی بات پر خادم مسکرایا۔
"بلکل محترمہ آپ پریشان مت ہوئے آپ کا بہادر بیٹا شیر ہے۔"
خادم نے آگے ہو کر معراج کے کندھے پر اپنا ہاتھ رکھا پھر حیرت سے جانان کو دیکھنے لگا۔
"آپ کو کہیں دیکھا ہے میں نے شائید"
خادم نے خدشہ ظاہر کیا جبکہ جانان جو اس شخص کو پہچان چکی تھی پریشانی سے یہاں وہاں دیکھنے لگی۔
خادم شفیق اور کوئی نہیں عثمان ملک کا سب سے خاص ساتھی تھا اور جانان نہیں چاہتی تھی کہ وہ معراج کے سامنے عثمان کا نام بھی لے۔انہوں نے آج تک معراج سے اسکے ماں باپ کی موت کا ہر راز چھپایا تھا۔
"آپ تو عثمان صاحب کی سالی صاحبہ ہیں نا میم حمنہ کی چھوٹی بہن۔۔۔"
خادم کی بات پر جانان کا سانس سینے میں ہی اٹک چکا تھا۔گھبرا کر اس نے ہاں میں سر ہلایا۔
"اور یہ آپ کا بیٹا ہے؟"
ذ
خادم نے معراج کی جانب دیکھتے ہوئے پوچھا جو ان دونوں کو حیرت سے دیکھ رہا تھا۔
"جی میرا اپنا بیٹا ہے۔۔۔"
جانان نے معراج کا ہاتھ تھام کر کہا۔
"ماشاءاللہ بہت بہادر بچہ ہے اگر آپ کو کبھی کسی چیز کی ضرورت ہو تو ضرور بتائے گا۔"
جانان نے فوراً مسکرا کر ہاں میں سر ہلایا تو خادم وہاں سے چلا گیا اور باہر آ کر اپنے پی اے کی سے متوجہ ہوا۔
"مجھے اس لڑکے کے بارے میں سب جاننا ہے۔"
"جی سر۔"
پی اے نے ہاں میں سر ہلایا اور خادم شفیق کے ساتھ وہاں سے چلا گیا جبکہ معراج اسکی باتیں سن کر حیران ہوا تھا۔
"کک۔۔۔کون عثمان ملک مما؟"
معراج کے سوال پر جانان نے سہم کر اسے دیکھا۔
"کوئی نہیں بیٹا کوئی نہیں۔۔۔"
جانان نے اسکا ہاتھ مظبوطی سے تھام کر کہا۔معراج نے مسکرا کر ہاں میں سر ہلایا اور اپنی آنکھیں موند گیا۔
❤️❤️❤️❤️
ہانیہ جب سے ہاسپیٹل سے آئی تھی تب سے اپنے کمرے میں بیٹھ کر اپنی اور وانیا کی تصویر کو دیکھتے ہوئے روتی جا رہی تھی۔
وہ کیسے اپنی بہن کے بغیر رہ سکتی تھی جب کہ وہ جانتی تھی کہ اس کی بہن بہت زیادہ نازک تھی بہت کمزور۔۔۔۔لیکن وہ کمزور نہیں تھی،نہیں وہ بہادر تھی اور اب اس نے بہادر بننے کا فیصلہ کیا۔
ہاں اسے بہادر بننا تھا اب وہ مزید اپنے باپ کی طرح ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر نہیں بیٹھنے والی تھی۔
یہ سوچ دماغ میں آتے ہی ہانیہ اٹھی پھر اپنی الماری میں موجود ڈائری میں سے ایک پیچ نکال کر اس پر موجود نمبر کو دیکھنے لگی۔پھر اس نے اپنا موبائل نکالا اور فون ملانے لگی۔
"ارمان مجھے ایک کام ہے تم سے۔۔۔"
اپنے دوست کے فون اٹھاتے ہیں ہانیہ نے سختی سے کہا۔
"ہاں بولو ہانی سب خیریت؟"
"مجھے اس شخص کا پتہ چاہیے اس کا نام انس راجپوت ہے میں نے تمہیں اس کا نمبر بھی سینڈ کیا ہے پانچ منٹ میں تم مجھے اس شخص کا پتہ بتاؤ۔۔۔۔"
ہانیہ نے ارمان کو حکم دیتے ہوئے کہا وہ جانتی تھی کہ ارمان بہت اچھا ہے ہیکر تھا اور وہ اس کا یہ کام ضرور کر لے گا۔
"پانچ منٹ ہانیہ۔۔۔"
اتنا کہہ کر ارمان نے فون بند کر دیا تو اپنے آنسو پونچھتے ہوئے ہانیہ الماری کی طرف بڑھی اور ایک بیگ نکال کر اس میں اپنی ضرورت کی چیزیں اور کچھ پیسے رکھنے لگی۔
ٹھیک پانچ منٹ کے بعد اس کا موبائل دوبارہ بجنے لگا۔
"ہاں بولو ارمان۔۔۔"
ہانیہ نے فون اپنے کان کے ساتھ لگاتے ہیں بے چینی سے کہا۔
"مری۔۔۔۔اس نمبر کا مالک انس راجپوت اس وقت مری میں ہے مکمل پتہ میں نے تمہارے موبائل پر سینڈ کر دیا ہے۔۔۔"
اتنا سن کر ہانیہ نے کال بند کی اور موبائل پر آئے اس پتے کو دیکھنے لگی۔
میں آپ کی طرح خاموش نہیں بیٹھوں گی بابا میں اپنی بہن کو ڈھونڈ کر رہوں
گی یہ وعدہ ہے میرا کہ اس گھر میں تب ہی واپس آؤں گی ابھی جب وانیا میرے ساتھ ہوگی۔
ہانیہ نے انس راجپوت کے پتے کو دیکھتے ہوئے سوچا اور پھر اس نے اپنے موبائل کا سارا ڈیٹا ڈیلیٹ کر کے اسے بیڈ پر پھینکا اور اور سب کی نظروں سے چھپتے چھپاتی گھر سے باہر نکل آئی۔
آج وہ اس شخص کے پاس جا رہی تھی جس کی شکل زندگی بھر نا دیکھنے کی اس نے قسم کھائی تھی۔۔۔۔وہ انس راجپوت کے پاس جا رہی تھی۔
❤️❤️❤️❤️